Sonntag, 9. Juni 2013

امیر بلوچستان، غریب بلوچ


وه تین ممالک میں رہتے ہیں اور زیاده خودمختاری کے لئے کہیں برس ہے لڑرہے ہیں.



بلوچستان میں یہ آرام خزنده اور آهستہ آهستہ نسل کشی "چیچنیا" یا "دارفور" کی قتل عام کی طرح، اب تک ایک اہم انسانی بنیادوں پر تباہی کے زمرے کہ تحت نہیں، اور متفاوت ہے!

آگست 2006 میں پاکستان کی جنوب مغربی صوبے بلوچستان سے "صرف" 2260 نفر مجبور تہے، اپنا پہاڑی اور صحرائی گاؤں چہوڑ کر، صوبے کی سٹرکوں اور دوسرے گرد و نواح میں بی خانمان آواره ہوگئے، یہ لوگ اُس بمب اور هتہیاروں کی کشنده آتشباری کی ڈر سے بہاگ گئے تہے، وه سلاح اور جنگی ایف 16 لڑاکا طیارے جو آمریکہ کی طرف سے، پاکستانی ایئرفورس کی حوالہ کردیا ہے.

وہاں (بلوچستان) جتنے انسان مارے اور زخمی ہوجاتے ہیں، اتنی انسان کے لئے مشکل ہوتاہے اپنے آنکہوں کو اِس نسل کشی پر بند کرنا.

اگر انسان، بلوچوں کی آزادی کا جدوجہد کو نظرانداز کرے، اُس وقت یہ سیاسی تنازعہ واضح طور پر نمایاں ہوتا ہے، کہ بلوچوں کا جدوجہد جنگ آزادی سے، پاکستان کا دوسرا قوم اور اقلیتوں پر کیا سیاسی اثرات.پرتا ہے.

صوبہ سندھ میں بہی علیحده خواه قوم پرست ہیں، جو جنرل پرویز مشرف کی فوجی- پنجابی حکومت کے واضح طور پر مخالفت کرتے ہیں، وه ایک علیحده سندھ کی لئے جدوجہد کررہے ہیں.

یا کے وه بلوچستان کی ساتھ ایک مستقل خودمختار ریاست بلوچ اور سندھی کی سرزمین، جو بہارتی سرحد سے ایران کی طرف، بحیرہ عرب تک جنوبی پاکستان کو شامل ہے، ایک فیڈریشن کا خواهش رکہتے ہیں.

پاکستان میں غیریقینی صورتحال کے لالچ میں، سندھی کے معروف قوم پرست، 
بہارتی حکومت سے اقتصادی اور فوجی امداد کی مطالبہ کا اظہار کرتے ہیں.

1947 میں، جب پاکستان برطانوی- بہارت کی ورثاء سے بن گیا، اُس وقت چھ ملین بلوچ قوم کو کوئی چاره نہیں تہا، جب پاکستان ابہر کر سامنے آئے بلوچوں کو زبردستی اور جبری طور پر نئے اسلامی مُلک کا حصه بنایا گیا.

1947 سے آج تک بلوچ قوم پرست اور علیحده پسندوں نے 3 بار اقتصادی اور سیاسی غیرعادلانه صورت کی وجہ سے، مرکزی حکومت کی خلاف بغاوت کیاہے، سب سے زیادہ بڑا جنگ بلوچوں اور مرکزی حکومتی (اسلام آباد) فوج کی در میان 1973 اور 1977 میں تہا، اُس وقت 55 هزار بلوچ جنگجو، 80 هزار پاکستانی فوجی کی خلاف لڑرہا تہا.

پاکستانی فورسز کی ایک فیصلہ کن لڑائیوں میں سے ایک لڑائی 1974 کا ملیڑی آپریشن تہا، جو پاکستانی فورسز نے بلوچوں کی خلاف انجام دیا، وه دره "چمالنگ" علاقے کی دیہاتوں پر ہوئی فوجی آپریشن تہا، اُس وقت 15000 بلوچ خاندانوں کے گہروں کو پاکستانی فورسز نے جلادیا گیا، اور بی دفاع عورتوں اور بچوں کو گہر سے بے گہر کردیا گیاتہا، تا کہ اِس طرح چہپے ہوئے مقامی بلوچ گوریلا جنگجووں کو علاقے کی پہاڑوں چہوڑنے پر مجبور کرسکے.

اُس وقت ایران کی شاہ، محمد رضا شاه پہلوی نے 30 لڑاکا ہیلی کاپٹر پاکستان کو مدد دئے، کیونکہ ایران کی شاه کو اپنی مُلک کی 12 لاکھ بلوچ باشندوں سے خدشہ اور خطره تہا.

یہ آج بلوچ اور پاکستانی فوج کی در میان جاری حال لڑائی سال 2005 میں شروع ہوا، بلوچ علیحده پسندوں کی شورش کو روکنے اور ختم کرنے کے لئے، مشرف حکومت نے پہلی حکومتوں سے مختلف، ظالم اور جابرانہ طریقہ استعمال کردیا، گذشته حکومتوں نے بلوچ علیحدگی پسند کارکنوں کو گرفتار کرکے انہوں کو، قید کی سزا دیاگیا تہا، اور انہوں کی فیملی کو باخبر کردیاگیا تہا، کہ اُن کا فیملی ممبر کوں سے جیل میں بند ہیں.

تاهم آج بلوچ مقامات، بلوچوں کی "اغوا" اور "غائب" کے الزام پاکستان کی مسلح افواج کو لگاتے ہیں، پاکستان کی مسلح افواج کسی بہی وجہ سے مزید اطلاع کے بہ غیر، سینکڑوں بلوچ نوجوانوں کو الزام لگاتے گرفتار کرکے نامعلوم مقامات پر لئے 
جاتے ہیں.

ماضی کے برعکس ابہی تک اسلام آباد کی حکومت کو یہ مہم حاصل نہیں ہوا ہے، کہ بلوچ قبائلوں کو ایک دوسرے کے خلاف، قبائلی جہگڑے کہیلنے میں گرفتار کرے، علاوہ، بر این اب یہ بلوچ نوجوان کارکن قبائلی رہنماؤں کی صفوں کی طرف 
بهرتی جا رہے ہیں.


تیس سال پہلے بلوچستان میں ایک ممتاز، تعلیم یافتہ متوسط طبقے موجود ہی نہیں تہا، لیکن آج ممتاز، تعلیم یافتہ متوسط طبقے کی بلوچ نوجوان "بلوچستان لیبریشن آرمی" کی صورت میں مسلح جدوجہد کر رہے ہیں.


 بلوچ سرمچاروں کا رهنماء لیڈر ڈاکتر الله نظر بلوچ



USA


جنیوا
لندن


بلوچستان لیبریشن آرمی کی ایک رہنما کا اظہارات کی مطابق، بلوچستان لیبریشن آرمی کو خلیجی ریاستوں کی بلوچ باشندوں کی طرف سے سپرد اور مدد حاصل ہے، اور اس طرح "بی ال ای" اپنا ہتھیار افغان سرحد کے ساتھ بلیک مارکیٹ سے 
فراهم کرسکتا ہے.


بلوچوں کا مظاهره پاکستان میں
بلوچوں کا مظاهره پاکستان میں
 بلوچوں کا مظاهره  لندن
جنیوا سوئزرلینڈ، اقوام متحده کی سامنے بلوچوں کا سیاسی مظاهره
پرویز مشرف نے بار بار دعوی کیا ہے کہ، هندوستان صوبے سندھ کے سرحدی اضلاع میں علیحدگی پسند گروپوں کو ہتھیار مدد کر رہا ہے، مگر تاہم پاکستان نے بہارت کی خلاف الزامات ثابت نہیں کرسکا.

بہارت کی حکومت نے، پاکستان کی اِس الزامات کو بی بنیاد قرار دیا ہے، لیکن هند باقاعدہ وقفوں میں اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے اور اس سے علاوہ ایک سیاسی مذاکرات کا خواهان ہے.

یہ الزام کہ، نئی دہلی بلوچستان اور سندھ میں بغاوت اور علیحده پسندوں کی حمایت کرسکتا ہے، اگر پاکستان کی صورت حال ایک وقت رفته رفته غیر یقینی ہوجا ہے، مگر برعکس بھارتی مبصرین کھتے ہیں، کہ بہارت ایک مستحکم پاکستان چاہتے 
.ہیں، تا کہ شاید کشمیر کے لیے، پاکستان کی ساتھ ایک امن معاہدے کرسکے.

بہارتی مبصرین کو بُڑا نہیں لگتاہے، کہ مشرف حکومت کی فورسز بلوچستان میں مصروف اور گرفتار ہے، اور آخر میں ایک دوسرے منطقہ ای بحران پاکستان کی 
صدر کو مجبور کرسکتاہے، کہ وه کشمیر میں اسلام پسند باغیوں کی حمایت کم کرے.

بہارت کے بر عکس، ایران میں ڈیڑھ ملین بلوچ باشنده تقریبا اکثریت اهل سنّت ہے، اس کی بنا پر ایران کو بہی ایک بلوچ قوم پرست- ناسیونالیسم کی ظهور سے، پریشان هوناچاہے ہیں.

بلوچستان پیپلز پارٹی (بی.پی.پی) جو اس کا ایک حصه ایران میں ہے اس کا رہنماؤں نے، شیعه رادیکال اور مذهبی-حکومتی انتهاپسند آیت الله ابراهیم نکونام کی مذمت کیا، نکونام چند وقت پہلے صوبے کی نئی حکومتی چیف جسٹس مقام پر منتخب ہوہے.

آیت اللہ هوں کی قیادت میں خفیہ پولیس، فوج اور پولیس یونٹ "مرصاد" ایک جبر کی مہم بلوچستان میں حکمفرما کیا گیا ہے، خفیہ پولیس، فوج اور پولیس یونٹ "مرصاد" سینکڑوں افراد اور انهوں کو پانسی دے دیا گیا.کو گرفتار کیا گیا تھا، اور گرفتار بلوچ لوگوں کو متحدہ امریکہ کے لئے جاسوسی کا الزام لگایا اور انهوں کو پانسی دے دیاگیا.

ایرانی بلوچ سیاسی اور حقوق انسانی پارٹیوں کی رہنماء.
شهید یعقوب مهرنهاد، انسانی حقوق کے کارکن اور زاهدان یونیورسٹی کا طالب علم
 اور بلوچی "انجمن جوانان صدای عدالت" کا رهنماء،جو اگست 2008 ایران میں
ایک خفیہ اور ناعادلانه اور ظالمانه مقدمے کی سماعت کے بعد، اُس کو پھانسی ہوہے


شهید یعقوب مهرنهاد اپنی انجمن جوانان صدای عدالت دوستوں کی ساتھ


انجمن جوانان صدای عدالت کا، انجمنی نشان
جنیوا سوئزرلینڈ، اقوام متحده کی سامنے بلوچوں کا سیاسی مظاهره.

جنیوا سوئزرلینڈ، اقوام متحده کی سامنے بلوچوں کا سیاسی مظاهره.
جنیوا سوئزرلینڈ، اقوام متحده کی سامنے بلوچوں کا سیاسی مظاهره.
جنیوا سوئزرلینڈ، اقوام متحده کی سامنے بلوچوں کا سیاسی مظاهره.
ایران کی بلوچ باشنده نہ صرف عددی اور شمارشی طور پر پاکستان کی بلوچوں سے کمتر ہیں، بلکہ وه اتنے قوم پرست نہیں اور تنظیمی طور پر وه منظم نہیں ہیں، ان کے اہم رہنما پاکستانی بلوچوں کے ساتھ ایک یونین میں ہوجانے، اب تک ان کا مقصد یہ نہیں ہیں.
 پوری مکمل بلوچ سرزمین کا علاقے تصفیے اور تقسیم کی بغیر ایران میں
ذیل ایرانی نقشہ میں واضح ہے، کہ بلوچوں کی سرزمین "استان سیستان و بلوچستان"صوبے کی سوا، تین مختلف صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، بلوچ سرزمین کی ایک حصه صوبے جنوبی خراسان، ایک حصه صوبے کرمان اور ایک حصه صوبے هرمزگان کی علاقوں میں ملحق کردیا گیا ہے، مطلب بلوچوں کی سرزمین، ایران میں چار (4) حصه پر تقسیم کردیا گیا ہے، جسے ذیل ایرانی نقشہ میں 4 جاگھ  نیلی رنگ، دیکھائے دے رہا ہے.

ایران کا نقشہ اور اس ملک میں رہنے والے مختلف اور متعدد قوم اوز زبانوں،
 نقشہ فوق میں بلوچوں کا سرزمین ایران میں 4 حصے میں تقسیم هوگیاہے.
ایرانی بلوچستان کا سیاسی پارٹی، بلوچستان پیپلز پارٹی (بی پی پی) اقلیتوں، کُرد اور عرب، آذری تُرک اور لرّ اور تُرکمن ہوں، کے ساتھ ایک اتحاد (کنگره ملیت های ایران فدرال) کا حصہ ہے، جو کے ایک فدرالیسم حکومتی نظام ایران میں بنانا چاتے ہیں.

اتحادی گروپ ایران کی لئے ایک وفاقی فدرالیسم نظام چاہتاہے، اس سیاست کی بنا پر ایران کے مرکزی حکومت خارجہ پالیسی اور وزارت دفاع، ٹیلی کمیونیکیشن اور غیر ملکی تجارت کی ذمہ دارہے، اور دوسرے ادارے مہارت صوبوں پر سومپنا چاہے ہیں.
ایرانی صوبے بلوچستان، ایران میں بلوچ سرزمین کا صرف ایک چوٹا حصے
 صوبے بلوچستان کی نام پر ہے، بلوچ سرزمین کا باقی حصے
 "کرمان" اور "هرمزگان" اور "جنوبی خراسان" صوبوں میں تقسیم ہوہے ہیں

http://www.arbeitermacht.de/ni/ni169/pakistan.htm



اِس کے برعکس پاکستانی بلوچ رهنماء جو پاکستان فوج کے ساتھ مسلسل لڑائی کے دوران میں اور زیاده رادیکال ہوگئے ہیں، اُن کا مقصد اور هدف اس بغاوت سے بلوچستان کا آزادی ہے، یا کہ 1973 پاکستانی قانون کی بنا پر، پاکستانی اشتبلشمنٹ صوبے بلوچستان کو پورا مکمل خودمختاری فراهم کرہے.

پرویز مشرف نے تمام پہلے فوجی حکومتوں کی طرح تمام قوانین و آئین کو منتفی کردیا ہے، لیکن جو پشتون، بلوچ اور سندھی کہ اوپر، بنیادی طور پرنسلی غالب گروپ (پنجابی قوم) کی طرف سے ضم ہیں، اقتصادی اور سیاسی ناهموار و ناحق سلوک کی ختم کرنا چاہتے ہیں.

بلوچستان، پاکستان کا قدرتی وسائل کی دکان اور اسٹور ہے، خاص طور پرایالت بلوچستان پاکستان کا ممکنہ قدرتی وسائل، تیل، اور تانبے، سونا اور یورینیم اور گیس کا ذخائزہے.

 ایک بڑے سونے اور تانبے کے معدنی ذخائر ریکوڈوک -بلوچستان میں


اگر چه پاکستان کا گیس %36 صوبے بلوچستان سے فراہم ہوتها ہے اس کا صرف کمترین آمدنی کا حصہ بلوچوں کو ملتا ہے، ایالت بلوچستان پاکستان کی غریب ترین خطے ہے. 

کیونکہ مثال طور پر پنجابیوں سے پاکستان کا ڈومینٹ گورنئمٹ، بلوچوں کی ترقیاتی فنڈز کا منصفانہ حصہ ادا نہیں کرتے ہیں، بلوچستان کی پیداوارگیس سے صرف %12 اسلام آباد بلوچستان کو ادا کرتا ہے.

اور ہندوس دریا (دریای سندھ) کی پانی کی دسترسی پر صوبے سندھ اور پشتنخواه کو مزید مشکلات در پیش ہیں، کیونکہ دریای هندوس کا پانی کانالوں کی ذریعہ صوبے پنجاب کی ڈیموں اور نہروں کو جاتها ہے.

20 جولائی میں صدر پرویز مشرف نے ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے، یہ الزام کو مسترد کر دیا ہے،.کہ بلوچستان اقتصادی طور پر پسماندہ ہوگیا ئے، مشرف نے بلوچستان کی ترقی کے لئے 49.8 ملین ڈالر کی ایک ترقیاتی پروگرام کا اعلان کیا، اعلان شده مبلغ سے یک آدھے صوبے کی سٹرکوں اور دیگر آدھے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں مختص ہوگیاہے.مشرف

 نے کہا کہ صوبے میں بنیادی ترقیاتی منصوبوں کی خلاف بلوچ قبائلی سردار ہیں اور وه اپنی جیب میں ترقی پیسے ڈال دیتے ہیں، اور بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کو فروغ دینے کے بغاوت کررہے ہیں، مشرف نے کہا هم نے بلوچستان میں فوج بہیجے ہیں تا کہ ترقیاتی منصوبوں کا تحفظ کرئے!

صدر پرویزمشرف نے بلوچستان کی جنگ احقاق حقوق اور آزادی کی بغاوت کا ذمه دارکچھ بلوچ سردار اور بلخصوص نواب اکبر بگٹی کو ذمه دار سمجہا، نواب اکبر بگٹی 26 آگوست 2006 اپنے  پهاری ٹهکانے میں پاکستانی فوج کی هاتھ، شهید ہوگیا ہیں.

شهید نواب اکبر بگٹی 

بلوچوں کی اس نئی بغاوت کے بارے میں سب سے حیرت انگیز اور نئی بات یہی ہیں، کہ اس جدوجہد اور آزادی بلوچستان کی لڑائی کا رہنماء اور جنگجو، آج کی دن صرف ایک قبیلہ کا سردار یا ان کی قبائل لوگ نہیں ہیں، بلکہ ایک نئی نسل بلوچ کی هر قبیلہ اور طایفہ سے، سیاسی باشعور اور ایجوکٹ شده نوجوان بلوچ، اس حقیقت جنگ خودمختاری اور آزادی بلوچستان کے لئیے شریک ہیں.



اس کا مطلب ہے کہ آینده میں نہ صرف ممکنہ صوبے خودمختاری کی بارے میں بات ضروری حیاتی ہیں، بلکہ مثال طور پر گیس اور تیل کی آمدنی پیداورا کے تقسیم اور ٹیکس اور خودمختاری پر مذاکرات کے لئیے، ممکن بات تجاویز ہونگے.


بلوچستان کے ویڈیو کلیپ
اس کے علاوہ ایک مسئلہ جو بلوچ اور پشتون اور سندھی پیش کرتی ہیں، وه پاکستان کی پارلئمنٹ- سینیٹ کا دوباره تحلیل اور تعریف کی منصوبہ ہے، بلوچ اور پشتونوں کا مطالبه ئے، اس پارلیمنٹ ایوان میں چار صوبوں کا یکساں طور نمائندگی ہونا چاہئے (یہاں تک کہ 1973 ء کے آئین کو معطل کردیا کے بعد) اور سینیٹ زیادہ اختیارات حاصل کرے، مثال طور پر سینیٹ کو اختیار ہوگا، ایک صوبائی حکومت کو معطل یا ہنگامی حالت کا اعلان کرے، نہ صدر یا وزیراعظم کو.
سندهی، پشتون اور بلوچوں کا ایک اور مطالبہ یہ ہے، کہ هر چار قوم (بلوچ، سندهی-پشتون- پنجابی) کی قومیت سے قطع نظر، ان کے دونوں پارلیمنٹ ایوانوں کے متساوی نمائندگی، ان کو حکومتی سیاسی اور سول سروس اور فوج میں یکساں طور پر مکمل مساوات چاہئے ہیں.

اقلیت اقوام کے لئیے ایک منتخب صوبائی حکومت، خودمختاری پر پہنچنے کے لئیے صرف ایک عبوری اصل کے طور پر بہی سمجہا جاتہا ہے.
پاکستان کے 165،8 ملین آبادی باشندوں سے، بلوچ قوم صرف 3.57 فیصد ہیں، پاکستان میں آبادی طور پر تین قوم، بلوچ، سندهی اور پشتون 72 فیصد پاکستان کی سرزمین کا مالک ہیں، اکثریت پنجابیوں کے لئیے یہ قابل برداشت نہیں ہے، کہ 72 فیصد پاکستان کی سرزمین 33 فیصد سندھیوں، بلوچوں اور پشتونوں اقواموں کی ملکیت میں ہے، اس طرح اور ایسے شناخت کے ساتھ کوئی امید نظر نہیں آرها ہے کہ 1973ء کے آئین دوباره پاکستان میں باحال ہوگئی.

پاکستانی مسلح افواج کا فوجی حکمرانی کو صوبے بلوچستان میں مد نظر رکہتے ہوے، اور سندھیوں کی بڑھتی ہوئی نقل و حرکت تیزی کے ساتھ قومی بنیاد پرستانہ کی طرف جاری ہے، لیکن سندھیوں کی مدد کی با وجود بلوچوں کے لئیے ناممکن ہے پاکستان کی مسلح افواج کو شکست دی، اور ایک آزاد بلوچستان ریاست قائم کریں.

ایک طرف سے، اس وقت اسلام آباد کو بہارت کی مداخلت کا ثبوت نہیں ہے، بلوچ اور سندھیوں کے بغاوت اسلام آباد کی خلاف، حکومت پاکستان کی کمزوری اور ناکامی کا ثبوت ہے، بلوچوں کی طرف جاری رکہیں جنگ اور بغاوت، ملک کو کمزور کردیاہے.

آخر میں شاید، ایک ممکنہ آئینی جامع جمہوریت اور دمکراتیک سمجھوتہ کے لئیے جدوجہد صرف کامیابی کے ساتھ، ممکن کرسکتا ہے کہ پاکستان کی مشکلات کمتر ہوجاہیں.
سب بلوچ اور سندھیوں کی نظر میں، امریکہ پاکستان میں موجودہ بحران کی ایک اہم حصہ کا ذمہ دار ہے، کیونکہ امریکہ پاکستانی فوج کو ہارڈ ویئر سیستم اور فوجی ساز و ساماں فراہم کررہاہے، اور پاکستان بلوچ بغاوت کو دبانے کے لئیے امریکی فوجی ہتھیاروں کی مدد سے، بلوچوں کی بغاوت کو دبا کر اور انهوں کو مار رہا ہے.

دوسرا وجہ کہ بلوچ اور سندهی امریکہ کو موجودہ بحران کی ذمہ دار جانتے ہیں، امریکہ کا اسلام آباد کی براہ راست فوجی امداد 11 ستمبر 2001 کی بعد، امریکی صرف فوجی امداد پاکستان کو 11 ستمبر 2001 سے لیکر 2009 تک 900 ملین ڈالر (یہ فنڈز کی مدد سے  پاکستان 36 ایف 16 لڑاکا طیارے خرید کرسکتا ہے). 

امریکہ نے پاکستان کی موجود مددی فنڈز اضافہ کردیا ہے، سال 2009 کے لئیے امریکہ پاکستان کو $ 600 ملین ڈالر سے زیادہ فراہم کی جاتی ہیں.

امریکہ کی طرف سے در همانحال پاکستان کو $ 3.6 ارب ڈالر اقتصادی امداد براہ راست حصول ہواہے اور امریکی تلاش اور کوشش پر تقریبا $ 13.5 ارب ڈالر پاکستان کی بدهکاری جو پاکستان دوسرے ڈونر ممالک کی مقروض تہے، واپسی پرداخت کرنا معاف ہوگیاہے.
 تبصرہ کی بغیر نہیں......!
اس کی بجای، کہ جورج بُش پرویز مشرف کو ایک سیاسی راه حل ( جیسے یورپی یونین کے نمائندوں نے کیا ہے) کے لئے دباؤ ڈالیں، بُش کهتا ہے یہ نسلی اور قومی کشیدگی پاکستان کا ایک "اندرونی معاملہ" ہے، اور پاکستان خود تلاش کرے اپنا راستہ بنا لئے اور ایک راه حل پیش کرے.

در این اثناء انسانی حقوق کی تنظیموں نے بہی درخواست کیا ہے، پرویز مشرف کو  بین الاقوامی دباؤ ڈالیں، تا که وه ایک سیاسی راه حل فراهم کرے، امریکا کی طرف سے بہی تنقید موجود ہے، جو خود ایک دوسرے اور دلیل ہے.

پہلا دلیل بلوچستان میں پاکستانی افواج کی تعیناتی اور امریکی طرف سے پاکستان کو فراہم کے گئے ہتھیار بلوچوں کی خلاف استعمال کرنا، دوسرا بلوچستان میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر پاکستانی افواج کی تعیناتی، اور اس سے بغیر جو جنگ پرویز مشرف امریکی دباؤ میں آکر القاعده اور طالبان کی خلاف آغاز کردیائے، پاکستان کو پهلے سے زیاده کمزور کردیا گیاہے.

جب تک امریکی جورج بش کی حکومت ہے، وه پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پر دباؤ نہیں ڈالتے ہے، یا کی شاید وه ناممکن مورد کبهی ممکن ہوجاہے، که گھریلو بڑھتی ہوئی دباؤ حکومت سے مستعفی ہوجاہے، اور بےنظیر بھٹو، اور نواز شریف کو آئندہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے لئیے، چلانے کے امکان دے.

Aus dem Englischen von Niels Kadritzke
Selig S. Harrison ist Direktor des Asienprogramms am Center for International Policy in Washington.
Le Monde diplomatique Nr. 8098 vom 13.10.2006, 406 Zeilen, Selig S. Harrison

Ausgabe vom 13.10.2006

مترجم؛ ح د سدیچ


2013.9.6